(ایجنسیز)
شام میں تین برسوں پر پھیلی خانہ جنگی کے نتیجے میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد افراد ہلاک اور پانچ لاکھ زخمی ہو چکے ہیں جبکہ ملکی معیشت بری طرح تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے خانہ جنگی سے متاثرہ اہل شام کی مدد کیلیے انسانی بنیادوں پر آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیتےہوئے کہا ہے اس امر کا فوری بنیادوں پر اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔
لندن میں قائم آبزرویٹری کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2011 سے اب ایک لاکھ تیس ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ مذکورہ بالا مارے جانے والوں میں 46266 والے عام شہری، 29083 باغی52290 بشار رجیم کے وفادار سکیورٹی اہلکار شامل تھے۔
علاوہ ازیں سال 2013 کے دوران مجموعی طور پر 73000 افراد کو لقمہ اجل بننا پڑا۔ ان میں عام لوگوں اور باغیوں سمت حکومتی وفادار بھی شامل ہیں۔ لندن آبزرویٹری کے مطابق شام میں خانہ جنگی کے دوران ہلاک ہونے والوں میں چار ہزار چھ سو خواتین اور سات سو بچے بھی شامل ہیں۔
اس عرصے میں بے گھر ہو کر یا جان بچانے کیلیے نقل مکانی کر جانے والے افراد کی تعداد کا اندازہ یہ ہے کہ 2012 کے دوران پانچ لاکھ اٹھاسی ہزار جبکہ 2013 میں 24 لاکھ لوگوں کا ہے۔ خانہ جنگی کے تیسرے سال میں پچھلے سال کے مقابلے نقل مکانی میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ سب سے
زیادہ نقل مکانی لبنان اور اردن کی طرف ہوئی ہے۔ ترکی، مصر اور عراق بھی ان ملکوں شامل ہیں جن کے ہاں بے خانماں شامی پناہ گزین ہوئے ہیں۔
آبزرویٹری کے مطابق لبنان میں تین برسوں کے دوران ساڑھے نو لاکھ شانی شہریوں نے پناہ لی، پونے چھ لاکھ اہل شام نے اردن میں پناہ لی، ترکی میں پانچ لاکھ باسٹھ ہزار اور عراق میں دو لاکھ سولہ ہزار جبکہ مصر میں ایک لاکھ پنتالیس ہزار شامی شہری پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ عالمی اداروں کے اعداد وشمار کے مطابق دو لاکھ پنتالیس ہزار شامی شہری اپنے ہی ملک میں محصوری کی زندگی گذار رہے ہیں۔
عالمی ادارے سمجھتے ہیں کہ ایک کروڑ سے زائد شامی شہری خوراک کی عدم دستیابی کے مسئلے سے پریشان ہیں، حتی کہ پینے کا پانی تک ملنا محال ہو رہا ہے۔ دس لاکھ بچے مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
خانہ جنگی سے شام کی معیشت پر کس قدر بھی سخت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ عمومی کاروبار تباہ ہو گئے ہیں، ملکی انفراسٹرکچر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ سالانہ شرح نمو کی سطح 45 فیصد کمی ہو ئی ہے اور شامی کرنسی کی قدر میں اسی فیصد کمی ہو چکی ہے۔
اس صورت حال میں 22 جنوری کو جنیوا میں دوسری امن کانفرنس کے انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ عمومی توقع ہے کہ شام کی اپوزیش بشار الاسد سے پاک مستقبل چاہتی ہے جبکہ بشار الاسد اقتدار سے الگ ہونے کو تیار نہیں ہیں۔